۳۰ شهریور ۱۴۰۳ |۱۶ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 20, 2024
تصاویر/پیاده روی اربعین حسینی مسیر نجف به کربلا

حوزہ/ امت اسلامیہ کےاتحاد کی راہ میں ایک اور سنگین رکاوٹ مسلمانوں میں قوم پرستی کا رجحان ہے۔ اسلام دشمن قوتوں نے امت کے درمیان قوم پرستی کو ہوا دے کر نسلی و قومی تعصبات کی ترویج کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

ترجمہ: محمد حسن غدیری

مقدمہ

قرآن کریم نے آیات وحی کے ذریعے مسلمانوں کو امتِ واحدہ کا نظریہ سکھایا اور یہ حکم دیا کہ مسلمان اسی نظریے کے مطابق اللہ کی رسی کو تھامے رہیں۔

جبکہ امت مسلمہ ابتدائے اسلام سے اب تک مختلف اختلافات اور فرقوں میں گرفتار ہے۔ آج کل بھی مختلف موانع مثلاً استعماریت، تکفیری فرقے ، برطانوی شیعہ (ایم آئی سیکس) ،قوم پرستی وغیرہ امت اسلامیہ کے اتحاد کی راہ میں مانع بنی ہوئی ہیں

ادھر اربعینِ حسینی اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق کو ختم کرنے اور ایک ملت کے تصور کو مضبوط کرنے کیلیے ایک موزوں اور مناسب پلیٹ فارم ہے۔

توحیدی نظام کی وحدت

پروردگار عالم نے نظام خلقت کو توحید کی بنیاد پر استوار ہے ۔ اس کائنات میں موجود تمام موجودات خدا ئے و احد کی نشانیاں ہیں۔فلسفۂ نبوت اور انبیاء کی بعثت انسانی معاشرے میں انسانوں کے باہمی اختلافات کو ختم کرنے کےلیے ہے۔

قرآن کریم انبیائے الہی کے حالات بیان کرنے کے بعد اسلامی معاشرے سے فرماتا ہے: إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ امَةً وَاحِدَةً۔

یہ عظمت والے انبیا سب ایک ہی امت تھے۔ان کےاہداف اور مقاصد بھی ایک ہی تھے ۔اگر چہ وہ اختلافِ زمانی کے لحاظ سے مختلف حصوصیات کے حامل یا مختلف طریقوں کے حامل تھے مگر سب ایک ہی لائن پر حرکت کرتے تھے۔ان تمام انبیاء نے راہِ توحیدمیں شرک کا مقابلہ کیا اور لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیتے ہوے حق و عدل کی راہ میں قدم اٹھایا ۔

امت کی تعریف

امت اس جماعت کو جو ایک ہی راستے پر گامزن ہو کہا جاتا ہے۔اس لحاظ سے امت مسلمہ چونکہ دینی اعتبارسے ایک ہی ہدف اورشریعت پر کاربند ہے لہذا اسے امت کہا جاتا ہے۔

مگر امت اسلامیہ ابتدائے اسلام سے ہی مختلف اختلافات اور فرقوں میں تقسیم ہے ۔

سیاسی مسائل، و جانشینی پیغمبر سے مربوط مسائل اور دیگر مسائل کی وجہ سے امت اسلامیہ مکتب اہل بیت سے جدا ہوئی ۔ مختلف مکاتب فکر وجود میں آئے۔ اسی طرح کلامی و اعتقادی مسائل میں مختلف آراء و مکاتب وجود میں آئے۔ یہ سب مختلف تاریخی ادوار میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا سبب بنے ہیں۔ اس مسئلے نے ایسی دوریاں ایجاد کیں جس کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کے تمام ادوار میں اسلامی گروہوں کے درمیان مختلف قسم کی لڑائیاں ہوتی رہیں۔ کبھی فکری لڑائی،کبھی سیاسی لڑائی اور کبھی مسلم گروہوں کے درمیان جنگیں اور فوجی لڑائیاں ہوتی رہیں۔حالانکہ کتاب وحی صراحت کے ساتھ تمام مسلمانوں کو اللہ کی رسی سے تمسک کرتے ہوئے متحد رہنے کا اور تفرقہ و اختلاف سے دوری کا حکم دیتا ہے۔

دوسری طرف رسول اکرمﷺ نے قرآن و عترت سے تمسک کو تمام مشکلات و اختلافات کے حل کے طور پر پیش کیا ہے۔

اتحادِ امت کے تقاضے اور رکاوٹیں

عصر حاضر میں مسلمانوں کو باہر اور اندر دونوں جانب سے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ایک اسلامی ملت کی تشکیل مشکل ہوگئی ہے۔

باہر سے استکباری قوتیں سالہا سال سے یہ کوشش کر رہی ہیں کہ اسلامی ممالک کو ماضی کی طرح غلام بنائے رکھیں اور اسلامی سرزمینوں کو ہر قسم کی پیشرفت و ترقی اور آزادی سے محروم رکھیں۔ ادھر اندر سے اسلامی ممالک کے بہت سے حکمرانوں نے اس سازش کو قبول کرتے ہوئے خود کو غیروں کا محتاج اور مقروض بنا لیا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے قومی وسائل کو دشمنان اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ وہ غاصب صیہونی حکومت کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور سرکاری و عوامی سطح پر اس کی حمایت کرتے ہیں۔

اس صورت حال میں مسلمانوں کو جس چیز کی شدت سے ضرورت ہے وہ ایسے عناصر و عوامل ہیں جو مسلمانوں کے درمیان موجود فاصلوں کو ختم کرتے ہوئے ان کو مشترکہ مقاصد و اہداف کی طرف رہنمائی اور تعاون فراہم کریں۔

یقینا قرآن کریم اس مقصد کے حصول میں سب سے مؤثر عنصر ہے جو اپنے جامع و کامل متن کے ساتھ امت اسلامیہ کے درمیان موجود بہت سے تنازعات کا حل پیش کرتا ہے۔

اربعین: امتِ واحدہ کا مشترکہ پلیٹ فارم

کتاب الہی کے علاوہ اہل بیت رسول امت اسلامیہ کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا ایک اور عنصر ہیں۔ اگر چہ مسلمانوں کی اکثریت اہل بیت ؑ کی ولایت و امامت پر اعتقاد و یقین نہیں رکھتی لیکن اہل بیت ؑ کی محبت تمام مسلمانوں میں ایک مشترکہ عنصر ہے۔اس سلسلے میں سید شہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کی محبت اور آپ کے فضائل رسول اکرم ﷺکی احادیث کی روشنی میں حاص توجہ کے قابل ہیں۔

اربعین عاشقان و محبانِ اہل بیت کی ملاقات کی جگہ (میعاد) ہے۔ یہ عظیم میعاد امت واحدہ کی قوت کی مظہر ہوسکتی ہے۔ اربعین کا خوبصورت نعرہ "حُبُّ الحُسینِ یَجمعُنا" کئی سالوں سے عالمی ذرائع ابلاغ میں ٹرینڈ بن چکا ہے نیز سماجی و اجتماعی میدانوں میں موجود ہے۔

اربعین کا اجتماع قومی،مذہبی، اور نسلی اختلافات کے باوجود امت اسلامیہ کے اجتماع کا ایک کامیاب اور حیران کن پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے۔لیکن امت واحدہ اور مسلمان قوم کے ارکان کے درمیان ایک مشترکہ مقصد کی تبیین و تشخیص کی ضرورت ہے۔ یہی مشترکہ ہدف موجودہ حالات میں سید الشہدا ؑ کی زیارت کے ان ایام میں زائرین کو خدمات فراہم کررہا ہے۔

تکفیریت :

امت واحدہ کی تشکیل کے لیے سنگین خطرہ

عالم اسلام کو درپیش چیلنجوں میں سے ایک تکفیریت کا انسان سوز نظریہ ہے ۔یہ امت واحدہ کے مفہوم اور نظریے کے ساتھ مکمل طور پر متصادم ہے ۔ مسلمانوں میں عام تکفیری سلسلے وہابیت اور سلفییت سے پروان چڑھے ہیں۔گذشتہ چند دہائیوں میں تکفیریت کو عالمی سطح پر فروغ دیا گیا جس نے عالم اسلام کی جڑون کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں بہت سے دیگر مسلمان فرقوں کے زعما اور مکتب تشیع کے علما و مراجع نے اسلامی بھائی چارے اور اتحاد امت کا پرچم بلند کیا ہے۔ اتحاد امت کی کامیاب عالمگیر کوششوں میں عالمی ہفتہ وحدت،عالمی یوم قدس اور اربعین ملین مارچ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

بیدار مغز مسلمانان عالم نے اربعین حسینی کے سایے میں اور اس انسان ساز پلیٹ فارم کے ذریعے یہ عملی اعلان کیا ہے کہ اسلام میں فرقہ وارانہ اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس عالمگیر اربعین ملین مارچ نے تنگ نظری اور تکفیریت کو اسلامی نقطہ نظر سے مسترد کر دیاہے ۔

اربعین نے نہ صرف مسلمانوں کے در میان بلکہ دنیا کے تمام پر امن انسانوں کے در میان اس سوچ کو فروغ دیا ہے کہ پر امن بقائے باہمی ہی دنیا کو امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔ زائرین اربعین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اتحادِ امت کے انسان ساز پیغام کو مزید عام کریں تاکہ اسلامی ممالک سے قتل و غارتگری اور بد امنی کی بنیاد ختم ہو جائے نیز اسلامی اخوت، برادری، مساوات، اور اتحاد و انسجام کے پرچم تلے امت مسلمہ تمام میدانوں میں ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرے۔

امت واحدہ کے مقابلے میں ایم آئی سکس گروہ دوسری طرف برطانوی M.I.6 کا پروردہ نام نہاد شیعہ گروہ ہے جوعالمی میڈیا پر اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرتا ہے۔یہ ایک اور چیلنچ ہے جو امت واحدہ کے تصور کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے ۔ یہ گروہ ایک طرف سے تکفیری تحریکوں کو تشیع اورمکتب اہل بیت کے ساتھ دشمنی کا بہانہ فراہم کرتا ہے اور دوسری طرف سے اسلامی مذاہب کے درمیان میل جول اور قربت کی بنیادوں کو ختم کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے یہ عناصر اربعین کے جلوسوں اورعزاداری کے اجتماعات میں فعال کردار رکھتے ہیں اور اہل بیت کے چاہنے والوں میں اپنے منحرف نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔

مسلمانوں اور شیعوں کو آگاہ ہونا چاہیے کہ ان کی مفسدانہ سوچ تشیع کی بنیادی سوچ سے کوسوں دور ہے ۔ مکتب اہل بیت اپنے کسی فرد کو دوسرے اسلامی مذاہب کے مقدسات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔

اربعین اور قوم پرستی کی نفی

امت اسلامیہ کےاتحاد کی راہ میں ایک اور سنگین رکاوٹ مسلمانوں میں قوم پرستی کا رجحان ہے۔ اسلام دشمن قوتوں نے امت کے درمیان قوم پرستی کو ہوا دے کر نسلی و قومی تعصبات کی ترویج کی ہے۔

نسل پرستی اور نام نہاد قوم پرستی کے تصور کا پرچار اسلامی ممالک میں نو آبادیاتی نظام کے فتنے کے ساتھ عربی، ایرانی، ترکی اور دیگر اقوام وغیرہ کی شکلوں میں کیا گیا۔اس طرح اسلامی سرزمین کو چھوٹے ممالک میں تقسیم کیا گیا ۔

اربعین حسینی امت اسلامیہ کے درمیان اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک بہت ہی مفید پلیٹ فارم ہے۔ تمام زائرین حسینی اگر چہ وہ بہت ہی قومیتوں اور نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن عشق حسینی کے وسیع سمندر میں ایک ہی محور ِحق کی زیارت کے درپے ہوتے ہیں۔ حق کق یہ محور سید شہداء کے نام سے معروف ہے۔ یہاں آکر رنگ و نسل کے سارے نقوش مٹ جاتے ہیں۔ یہ حسینی تحریک کی خصوصیت ہے کہ وہ نسلی، لسانی اور علاقائی وابستگیوں سے قطع نظر مختلف گروہوں کو اکھٹا کرتی ہے ۔ اس واحد تحریک کا ایک ہی پیغام ہے جو انسانیت کا خدائی منشور ہے۔

آخری نکتہ یہ کہ اس عظیم تحریک کے منصوبہ ساز اور پالیسی ساز سید شہداء کے اقوال میں سے ہم ہر سال ایک قول کو منتخب کر سکتے ہیں اور اسے اس سال کے تمام حسینیوں کے مشترکہ نعرے کے طور پر اس مہم کے لیے استعمال کر سکتے ہیں تاکہ حسینی زائرین میں تحریک حسینی کو فروغ ملے اور اس عظیم تحریک کو عالمی سطح پر ایک واضح شناخت ملے۔اس نعرے کا اعلان اربعین میں موجود تمام گروہوں کے مشترکہ بیانیے کی صورت میں کیا جائٗے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .